مسلمان امت قیامت تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے احسان سے سبکدوش نہیں ہوسکتی جو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا جانی ، مالی اور زبانی مدد سے ساتھ دیا اور دین کو حرف بحرف ہم تک پہنچایا۔ اگر وہ بے ایمان ہوتے یا منافق ہوتے ، جیسا کہ کچھ لوگوں کا غلط خیال ہے تو اسلام کا پورا نہ جڑ پکڑ سکتا اور نہ پروان چڑھ سکتا بلکہ بہت جلد مرجھا کے رہ جاتا ان پاک ہستیوں کے ایمان اور ایثار کا ذکر اللہ تعالی نے قران مجید میں فرمایا:
وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَهَاجَرُواْ وَجَٰهَدُواْ فِي سَبِيلِ ٱللَّهِ وَٱلَّذِينَ ءَاوَواْ وَّنَصَرُوٓاْ أُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡمُؤۡمِنُونَ حَقّٗاۚ لَّهُم مَّغۡفِرَةٞ وَرِزۡقٞ كَرِيمٞ
جولوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور خدا کی راہ میں اپنے مال و جان سے لڑے
، وہ اور جنہوں نے ہجرت کرنے والوں کو جگہ دی اور ان کی مدد کی وہ آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔
بخاری و مسلم وغیرہ میں حدیث ہے کہ حضور اکرم نے فرمایا:
میرے اصحاب کو برا نہ کہو کیونکہ تم احد پہاڑ کے برابر سونا خدا کی راہ میں خیرات کرو تو بھی میرے صحابہ کے ایک مد (پنجابی والا ایک بک) جو خیرات کرنے کے برابر نہیں ہوسکتا
جلیل القدر اصحاب کا مقام:
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا:
"دنیا میں سب سے زیادہ احسان مجھ پر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہیں۔"
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا:
"اگر اس امت میں سے نبی نہ ہونے کے باوجود کوئی ایسا ہو جس سے خدا کلام کرے (محدث، مقهم، معلم) تووہ عمر ہو گا ۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں احد پر فرمایا: "یہ شہید ہوں گے ۔"
حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے ساتھ وہی نسبت دی جو سیدنا ہارون علیہ السلام کو سیدنا موسی علیہ السلام سے تھی اگر چہ اب نبی کوئی نہیں ہے۔
صحابہ کرام د دین میں اس لیے محترم ہیں کہ وہ برہانِ نبوت ہیں۔ وہ حضور علیہ السلام کے سچا نبی ہونے کی دلیل ہیں ۔ وہ ایمان لانے سے پہلے بدترین لوگ تھے۔ قرآن مجید کی سوره اعراف آیت نمبر 179 میں فرمایا کہ عرب کے لوگ جانور بلکہ جانوروں سے بھی بدتر تھے۔ ان میں ہر عیب تھا اور ان عیوب کومجلسوں میں اعلانیہ بیان کرتے تھے۔ اب بھی سبعہ معلقات میں وہ ساری باتیں موجود ہیں۔ مگر وہی لوگ جب رسول کریم ﷺ کے پاس آئے تو اللہ کے ولی بن گئے ۔ وہی بد معاش بدو انتہائی نیک بن گئے ۔ اگر حضور ﷺ معاذ اللہ سچے نہ تھے تو ایسے برے لوگوں کو کیسے بدل کر رکھ دیا؟ حضور ﷺ کے بے شمار معجزے اور دلائلِ ثبوت ہیں لیکن ان میں سب سے بڑا معجزہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا وجود ہے کہ جولوگ آپ ﷺ کے پاس بیٹھے ان پر کیا رنگ چڑھا؟ وہ بدلے کی نہیں بدلے؟ اگر بدلے ہیں تو برے بنے کہ نیک ؟
اس بات کی طرف قرآن مجید نے کفارِ عرب کی توجہ دلائی کہ نبی ﷺ کے پاس بیٹھنے والوں کی زندگیوں میں انقلاب دیکھ کر بھی تم کو عقل نہیں آتی کہ وہ لوگ اب رکوع وسجود میں مشغول رہتے ہیں جو پہلے ہر وقت برے کاموں میں مشغول رہتے تھے۔ لہذاصحاب کرام رضی اللہ عنہم معجزہِ نبوت ہیں۔
پہلے انبیاء کرام علیہم السلام کے صحابی اگر بعد میں یا ان کی موجودگی میں بگڑ بھی جاتے تھے تو بعد میں آنے والے انبیاء کرام علیہم السلام ان کے بگاڑ کو درست کر دیتے تھے۔ مگر رسول خدا ﷺ چونکہ آخری نبی تھے۔ اگر ان کے ساتھی بھی اسی طرح بگڑ جاتے جیسے پہلی امتوں میں ہوتا تھا۔ تو ان کو کس نے آ کر ٹھیک کرنا تھا؟ یاد رکھوحضور ﷺ اس لحاظ سے بھی انبیاء کرام میں منفرد ہیں کہ نہ آپ کی بیویوں میں سے کوئی کافر ہ ہوئی نہ آپ کی اولاد میں سے کوئی کافر ہوا اور نہ سامری کا بچھڑا پوجنے والوں کی طرح امت مرتد ہوئی۔ آپ ﷺ کی بیویوں کے متعلق
قرآن مجید کی سوره احزاب:(32/33 )میں فرمایا:” تم عام عورتوں کی مانند نہیں ہو‘‘
0 تبصرے