سوال :
مولانا صاحب میں نے یہ سوال پوچھنا تھا کہ کسی لڑکی کا سوتیلا باپ اس کا محرم ہوتا ہے یا نہیں ہوتا یعنی کہ اس لڑکی کو اس سے پردہ کرنا چاہیے یا نہیں۔
جواب :
شیخ الاسلام مولانا محمد اسحاق مدنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
آپ کا سوال یہی ہے کہ اگر کسی مرد نے کسی ایسی عورت سے شادی کی ہے جس کی اولاد میں پہلے سے ایک لڑکی موجود ہے۔ اس سوتیلی بچی کو عربی میں "ربیبہ" کہتے ہیں۔ تو کیا ربیبہ کو اپنے سوتیلے باپ سے پردہ کرنا چاہیے یا نہیں؟
یہ بات اللہ تعالی نے قرآن مجید میں بتائی ہے کہ اگر اس باپ نے اس لڑکی کی ماں سے نکاح کرکے اس کے ساتھ مباشرت کر لی۔ تو وہ اس کا محرم بن جائے گا ، اس کے ساتھ نکاح حرام ہو جائے گا، وہ اس کی بیٹی بن جائے گی۔ اگر اس باپ نے صرف اس لڑکی کی ماں سے نکاح کیا تھا , جنسی تعلق قائم نہیں کیا تھا اور اسے طلاق دے دی تو قرآن مجید اب یہ کہتا ہے کہ وہ لڑکی اس کے لیے نامحرم ہے اس کے ساتھ نکاح حلال ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اس لڑکی کے سوتیلے باپ نے اس کی ماں کے ساتھ جنسی تعلق قائم کر لیا تو وہ اس کی بیٹی بن جائے گی۔ اس کے ساتھ نکاح بھی حرام ہو گا۔ وہ اس کے لیے محرم ہوجائے گی۔
یہ مسٰلہ سورہ نساء کی آیت نمبر 23میں بیان ہوا ہے جو ذیل میں دے دی گیٴ ہے۔
تم پر حرام ہیں تمہاری مائیں اور بیٹیاں اور بہنیں اور پھوپھیاں اور خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور جن ماؤں نے تمہیں دودھ پلایا اور تمہاری دودھ شریک بہنیں اور تمہاری عورتوں کی مائیں اور تمہاری عورتوں کی بیٹیاں جنہوں نے تمہاری گود میں پرورش پائی ہے (ایسی عورتیں) جن کے ساتھ تم نے جنسی تعلق قائم کیا ہو، اور اگر جنسی تعلق قائم نہ ہوا ہو تو پھر (ان کی بیٹیوں کے ساتھ) نکاح میں کچھ گناہ نہیں، اور تمہارے سگے بیٹوں کی عورتیں (بھی تم پر حرام ہیں)، اور دو بہنوں کو اکھٹا کرنا (ایک نکاح میں حرام ہے) مگر جو پہلے ہو چکا، بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیخ الاسلام مولانا محمد اسحاق مدنی رحمہ اللہ کی جس ویڈیو سے مندرجہ بالا مواد لیا گیا ہے وہ ذیل میں دے دی گیٴ ہے ,
آپ اس سے بھی استفادہ کر سکتے ہیں۔
1 تبصرے
Great Answer
جواب دیںحذف کریں