غیر مسلم کے ساتھ ظلم کرنے کی سزا !
سوال:
مولانا صاحب ایک مسلمان ، کسی غیر مسلم کے ساتھ کوئی زیادتی کرتا ہے ، لیکن دوسری طرف یہ بات بھی ہے کہ قیامت کے دن غیر مسلم جنت میں نہیں جائے گا۔ تو مسلمان نے جو اس کے ساتھ ظلم اور زیادتیاں کی ہیں ان کا ازالہ کیسے ہوگا؟
جواب:
شیخ الاسلام مولانا محمد اسحاق مدنی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"اللہ تعالی اس کے ساتھ پورا انصاف کرے گا۔
مومن اور مسلمان کو بھی سزا بھگتنی پڑے گی کہ کیوں اس نے اس بے چارے کے ساتھ ظلم کیا؟
غیر مسلم تھا تو کیا ہوا؟ اللہ کا بندہ تھا ، اللہ خود ہی اس سے پوچھے گا۔ یہ مسلمان کیوں زیادتی کرتا ہے اس کے ساتھ؟ (اس مسلمان کو کوئی حق نہیں کہ وہ اس کے ساتھ زیادتی کرے)
اگر کسی مسلمان نے کسی غیر مسلم کے ساتھ زیادتی کی ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اس غیر مسلم سے معافی مانگے ، اگر اس سے معافی نہیں لی تو اس غلط فہمی میں مبتلا نہ رہنا کہ میں نے ایک عیسائی یا یہودی کے ساتھ زیادتی کی ہے تو میں بخشا جاؤں گا۔
ایک مسلمان کو کسی کے ساتھ ظلم کرنے کا حق نہیں۔ اگر آپ نے کسی کے ساتھ زیادتی کی ہے تو اس سے معافی مانگیں؛ اگر نہیں مل سکتا، تو اللہ تعالی سے توبہ و استغفار کریں ، اللہ تعالی رحم کرنے والا ہے۔
یہ جو ہمارے ملکوں میں غیر مسلم اقلیت رہتی ہے انہیں ہم معاہد کہتے ہیں۔ لفظ معاہد عہد سے ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ان لوگوں سے ہمارا یعنی ہماری حکومت اور امت مسلمہ کا وعدہ ہے کہ تم لوگ ہمارے ملکوں میں رہو، ہم تمہارے جان، مال، عزت و آبرو کے محافظ ہیں۔
ایسے لوگوں کو معاہد یا ذمی کہتے ہیں، یعنی کہ ہم مسلمانوں نے ان غیر مسلموں کو گارنٹی دی ہے اور گارنٹی بھی ہم لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کی دی ہے۔ یہ میری اور آپ کی نہیں ، نہ ہی کسی صدر اور حکومت کی ہے ، یہ ضمانت تو ہم نے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے دی ہے۔
اسی لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"عَنْ عِدَّةٍ (وعند البيهقي: عَنْ ثَـلَاثِيْنَ) مِنْ أَبْنَاءِ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم، عَنْ أبَائِهِمْ دِنْيَةً، عَنْ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: أَلَا مَنْ ظَلَمَ مُعَاهِدًا، أَوِ انْتَقَصَه، أَوْ کَلَّفَه فَوْقَ طَاقَتِه، أَوْ أَخَذَ مِنْه شَيْئًا بِغَيْرِ طِيْبِ نَفْسٍ فَأَنَا حَجِيْجُه يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ. وَقَالَ الْعَجْلُوْنِيُّ: إِسْنَادُه حَسَنٌ.
[4: أخرجه أبو داود في السنن،کتاب الخراج والفي والإمارة، باب في تعشير أهل الذمة إذا اختلفوا بالتجارات، 3 / 170، الرقم: 3052، والبيهقي في السنن الکبری، 9 / 205، الرقم: 18511، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 / 7، الرقم: 4558، والعجلوني في کشف الخفائ، 2 / 342.]
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کئی اصحاب کے صاحبزادوں (امام بیہقی کی روایت میں ہے کہ تیس صاحبزادوں) نے اپنی انتہائی قریبی رشتہ داروں سے روایت کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: خبر دار! جس نے کسی معاہد (ذمی) پر ظلم کیا یا اُس کے حق میں کمی کی یا اُسے کوئی ایسا کام دیا جو اُس کی طاقت سے باہر ہو یا اُس کی دلی رضامندی کے بغیر کوئی چیز اُس سے لے لی تو قیامت کے دن میں اُس کی طرف سے جھگڑا کروں گا۔‘‘
اِس حدیث کو امام ابو داود نے روایت کیا ہے۔ امام عجلونی نے فرمایا: اِس کی سند حسن ہے۔"
۔
کہیں یہ بات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں آئی ہے جب کہ کہیں ایسا بھی آیا ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ میں خود ایسے لوگوں کے خلاف مقدمہ قائم کروں گا کہ تم لوگوں نے اللہ اور رسول کا ذمہ دے کر بعد میں ان کے ساتھ زیادتی کیوں کی؟
"اللہ تعالی اس کے ساتھ پورا انصاف کرے گا۔
مومن اور مسلمان کو بھی سزا بھگتنی پڑے گی کہ کیوں اس نے اس بے چارے کے ساتھ ظلم کیا؟
غیر مسلم تھا تو کیا ہوا؟ اللہ کا بندہ تھا ، اللہ خود ہی اس سے پوچھے گا۔ یہ مسلمان کیوں زیادتی کرتا ہے اس کے ساتھ؟ (اس مسلمان کو کوئی حق نہیں کہ وہ اس کے ساتھ زیادتی کرے)
اگر کسی مسلمان نے کسی غیر مسلم کے ساتھ زیادتی کی ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اس غیر مسلم سے معافی مانگے ، اگر اس سے معافی نہیں لی تو اس غلط فہمی میں مبتلا نہ رہنا کہ میں نے ایک عیسائی یا یہودی کے ساتھ زیادتی کی ہے تو میں بخشا جاؤں گا۔
ایک مسلمان کو کسی کے ساتھ ظلم کرنے کا حق نہیں۔ اگر آپ نے کسی کے ساتھ زیادتی کی ہے تو اس سے معافی مانگیں؛ اگر نہیں مل سکتا، تو اللہ تعالی سے توبہ و استغفار کریں ، اللہ تعالی رحم کرنے والا ہے۔
یہ جو ہمارے ملکوں میں غیر مسلم اقلیت رہتی ہے انہیں ہم معاہد کہتے ہیں۔ لفظ معاہد عہد سے ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ان لوگوں سے ہمارا یعنی ہماری حکومت اور امت مسلمہ کا وعدہ ہے کہ تم لوگ ہمارے ملکوں میں رہو، ہم تمہارے جان، مال، عزت و آبرو کے محافظ ہیں۔
ایسے لوگوں کو معاہد یا ذمی کہتے ہیں، یعنی کہ ہم مسلمانوں نے ان غیر مسلموں کو گارنٹی دی ہے اور گارنٹی بھی ہم لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کی دی ہے۔ یہ میری اور آپ کی نہیں ، نہ ہی کسی صدر اور حکومت کی ہے ، یہ ضمانت تو ہم نے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے دی ہے۔
اسی لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"عَنْ عِدَّةٍ (وعند البيهقي: عَنْ ثَـلَاثِيْنَ) مِنْ أَبْنَاءِ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم، عَنْ أبَائِهِمْ دِنْيَةً، عَنْ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: أَلَا مَنْ ظَلَمَ مُعَاهِدًا، أَوِ انْتَقَصَه، أَوْ کَلَّفَه فَوْقَ طَاقَتِه، أَوْ أَخَذَ مِنْه شَيْئًا بِغَيْرِ طِيْبِ نَفْسٍ فَأَنَا حَجِيْجُه يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ. وَقَالَ الْعَجْلُوْنِيُّ: إِسْنَادُه حَسَنٌ.
[4: أخرجه أبو داود في السنن،کتاب الخراج والفي والإمارة، باب في تعشير أهل الذمة إذا اختلفوا بالتجارات، 3 / 170، الرقم: 3052، والبيهقي في السنن الکبری، 9 / 205، الرقم: 18511، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 / 7، الرقم: 4558، والعجلوني في کشف الخفائ، 2 / 342.]
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کئی اصحاب کے صاحبزادوں (امام بیہقی کی روایت میں ہے کہ تیس صاحبزادوں) نے اپنی انتہائی قریبی رشتہ داروں سے روایت کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: خبر دار! جس نے کسی معاہد (ذمی) پر ظلم کیا یا اُس کے حق میں کمی کی یا اُسے کوئی ایسا کام دیا جو اُس کی طاقت سے باہر ہو یا اُس کی دلی رضامندی کے بغیر کوئی چیز اُس سے لے لی تو قیامت کے دن میں اُس کی طرف سے جھگڑا کروں گا۔‘‘
اِس حدیث کو امام ابو داود نے روایت کیا ہے۔ امام عجلونی نے فرمایا: اِس کی سند حسن ہے۔"
۔
کہیں یہ بات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں آئی ہے جب کہ کہیں ایسا بھی آیا ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ میں خود ایسے لوگوں کے خلاف مقدمہ قائم کروں گا کہ تم لوگوں نے اللہ اور رسول کا ذمہ دے کر بعد میں ان کے ساتھ زیادتی کیوں کی؟
شیخ الاسلام مولانا اسحاق مدنی رحمہ اللہ کی جس ویڈیو سے مندرجہ بالا مواد لیا گیا ہے وہ ذیل میں دے دی گئی ہے
آپ اس سے بھی استفادہ کر سکتے ہیں۔
0 تبصرے